
حیات رضوی امروہوی صاحب کراچی کی ایک ممتاز شخصیت، ایک اچھے شاعر اور ادیب تھے اسی سال دو جولائی کو انہوں نے اپنی رہائش گاہ پرایک مشاعرے کا اہتمام کیا۔ حیات رضوی نے اس موقع پر حاضرین محفل کو بتایا کہ وہ 83 برس کے ہو گئے ہیں لیکن وہ اردو ادب کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ کچھ دوستوں سے ملاقات ہو جائے لہٰذا میں نے یہ مشاعرہ ترتیب دیا ہے۔ اپنے رسالے عمارت کار ذکر کرتے ہوئے انہوں نے حاضرین محفل کو بتایا کہ ان کا رسالہ عمارت کار 15 سال سے بلاتعطل شائع ہو رہا ہے لیکن اب پبلشنگ کے مسائل بڑھ گئے ہیں اور مہنگائی کے سبب رسالے کی اشاعت جاری رکھنا ممکن نہیں ہے لہٰذا وہ 30 ویں شمارے کے بعد یہ پرچہ بند کر دیں گے تاہم آن لائن کام جاری رہے گا ۔ اس اعلان کے اگلے دن ہی حیات رضوی صاحب۔ کا انتقال ہو گا حیات رضوی صاحب کی کتابوں میں ان کا مجموعہ کلام زاویہ حیات ، خلاصہ قرآن ، سر سید پر کتاب آثار الصنادید ۔ "پاکستان میں مسلم عمارت کاری"اور کراچی کے بارے میں ان کے مضامین کا مجموعہ کرانچی کرانچی شامل ہیں ۔ اس کتاب میں حیات رضوی صاحب نے کراچی، اس کے مضافات اور سندھ کے بہت سے مقامات کے بارے میں تذکرہ کیا ہے یہ دراصل ان مضامین کا مجموعہ ہے جو روزنامہ جنگ میں ان کے کالم "کولاچی کراچی" اور ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوتے رہے ہیں ان کے مضامین میں سے آپ کے لیئے منتخب کیا ان کا مضمون " کراچی کا اردو بازار " آئیے سنتے ہیں