جہنم میں تو آگ نہیں ہوتی ہے روایتوں میں آتا ہے کہ ایک نوجوان جب کافی عرصہ جنت میں رہ لیا تو اس نے خواہش ظاہر کی کہ اسے جہنم ۔بھی ایک نظر دکھا دی جائے۔ اسے بہت سمجھایا گیا کہ تم جنت میں آرام سے بیٹھے ہوئے جہنم دیکھ کر کیا کرو گے مگر وہ مصر رہا تو اجازت دے دی گئی کہ اس کو جہنم بھی دکھا دی جائے۔ وہ شخص جہنم گیا ہر طرف گھوم پھر کر جہنم دیکھی جب واپس آیا تو اس سے پوچھا گیا کہ تو نے کیا دیکھا اس نے کہا جہنمیوں پر عذاب مگر مجھے حیرت ہوئی دیکھ کر کہ میں نے جہنم میں کہیں آگ نہیں دیکھی اسے بتایا گیا کہ ہاں تم نے صحیح دیکھا جہنم میں آگ بالکل نہیں ہوتی ہے جہنم میں آگ کیوں نہیں ہوتی ہے؟ اور اگر آگ نہیں ہوتی ہے تو جہنمیوں کو آگ کا عذاب کیسے ملتا ہے ؟ اس کا جواب آپ کو اس تین منٹ کی اس ویڈیو میں دیکھیں - اگر آپ "Soft Skill" یا "جینے کے قرینے " کو سیکھنا چاہتے ہیں تو علم و ہنر کے اس چینل کو سبسکرایب کریں جہاں آپ کو ان موضوعات پر ڈیڑھ ڈیڑھ منٹ کے کئی کلپس بھی دیکھنے کو ملیں گئ جن میں آپ کو یقینی دلچسپی ہو گی سبسکرائب کرنے کالنک نیچے ہے https://youtube.com/@ilmohunar4884?sub_confirmation=1
https://youtu.be/8yGJaLAd2LA ظنز و مزاح پر مبنی امتیاز علی تاج کی خوبصورت تحریر "چچاچھکن نوچندی دیکھنے چلے" اس قسم کی دیگر خوبصورت تحریروں کتابوں پر تبصرے اور کتابوں سے اقتباسات سننے کے لیئۓ نیچے دیئے گئے لنک کو پریس کریں
اس سے قبل آپ ذکر کتاب پر امتیاز علی تاج صاحب کی ایک اور تحریر چچاچھکن نے تصویر ٹانگی آپ سن چکے ہیں
اس کا لنک یہ ہیں
https://youtu.be/VfEa_ewW1CA
چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے اس لنک کو پریس کریں
http://YouTube.com/c/zikrekitab?sub_confirmation=1
https://youtu.be/VJL2wJCz6T4 فیض احمد فیض کتابوں کے آئنے میں
فیض احمد فیض قسط نمبر 1
https://youtu.be/979VHhaC1uQ
فیض احمد فیض قسط نمبر 2
https://youtu.be/DlOTHFUiItc
کتابیں جو میں نے پڑھیں کے سلسلے میں محمود احمد صاحب جائزہ لے رہے ہیں مختلف ادیبوں شاعروں اور سیاست دانوں کی شخصیت کا ان کتابوں کی روشنی میں جو ان لوگوں نے لکھیں یا ان کے بارے میں لکھی گئی ہیں محمود صاحب اس سے پہلے شیرباز خان مزاری صاحب اور شورش کاشمیری کی شخصیتوں کا جائزہ لے چکے ہیں کتابون کہ روشنی میں انہوں نے تیسری جس شخصیت جق چنا ہے ان کا نام فیض احمد۔ فیض ہے آپ جائزہ لے رہے ہیں فیض کی زندگی کا ان کی اور ان کے بارے میں لکھی ہوئی کتابوں کی روشنی میں ۔ اس سلسلے میں آپ پہلی قسط سن چکے ہیں
آج یہ ا جس میں محمود صاحب نے فیض صاحب کی کتاب دست تہہ سنگ کے حوالے سے بتایا کہ کس طرح وہ کالج کی زندگی ہی سب ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو گئے تھے محمود صاحب نے بتایا تھا کہ ایک وقت تھا کہ فیض صاحب گانے والیوں میں اتنے مقبول تھے کہ اکثر ان سے مشاعروں میں درخواست ہوتی تھی کہ آپ اپنی فلاں گانے والی کی فلاں غزل سنا دیں پہلی قسط میں محمود صاحب نے فیض صاحب کے شادی سے قبل اور شادی کے بعد کے رومان اور معاشقوں کا بھی ذکر کیا تھا
دوسری قسط میں فیض صاحب کے معاشقوں اور رومان کے تذکرے کو ختم کرتے ہوئے محمود صاحب نے بتایا کہ فیض صاحب رومان پسند ضرور تھے مگر۔ بد چلن نہیں ۔ محمودصاحب نے بتایا کہ تقسیم ہند سے قبل ترقی پسند تحریک نے برطانوی سامراج کا اس لیئے ساتھ دیا کہ وہ روس کا اتحادی تھا بڑی تعداد میں ترقی پسند شعرا اور ادیب برطانوی فوج اور حکومت میں۔ شامل ہوئے جس میں فیض صاحب بھی تھے ۔ 1951 میں جب میجر جنرل اکبر خان کی سربراہی میں پنڈی سازش کیس کا انکشاف ہواتو اس میں ہندوستان نے کیمونسٹ پارٹی کے بھیجے ہوئے منذوب سجاد ظہیر کے ساتھ ساتھ فیض صاحب بھی سازش کے شریک کار کے طور پر گرفتار ہوئے تھے پنڈی سازش کیس میں جیل میں گزرے فیض صاحب کے دنوں کے بارے میں۔ ان کی شریک جرم ظفراللہ پوشی کی کتاب زندگی زنداں دلی کا نام ہے کا محمود صاحب نے ذکر کیا پنڈی سازش کیس کے تذکرے کے بعد محمود صاحب نے اس قسط میں جائزہ لیا فیض صاحب کہ صحافیانہ زندگی کا جس کا آغاز ہوا تھا پاکستان ٹائمز سے پھر محمود ہارون نے جب ڈان گروپ کے اخبارحریت کی ادارت انہیں دی تو فیض۔ صاحب نے اسے بائیں بازو کا اخبار ترقی پسند صحافیوں کو لا کر اسے بائیں بازو کا اخبار بنانے کی کوشش کی جو ناکام ہو گئی ۔فیض صاحب۔ محفلوں میں بہت کم گو تھے اور کئی کئی گھنٹوں میں ایک جملہ بھی نہیں بولتے تھے محمود صاحب نے اس قسط میں۔ فیض صاحب کے بارے میں حمید نسیم ، خوشونت سنگھ اور صبیح محسن کہ کتابوں کا حوالہ دیا اقتباسات سنائے اور ان کی کم گوئی کے کئی قصے سنائے
آج سلسلےکی یہ تیسری قسط ہیں اس میں محمود صاحب نے فیض احمد فیض کی شخصیت کا جائزہ لیا ہےان کے ہم عصر ادیبوں اور شاعروں کی تحریروں کی روشنی میں جن لوگوں کی تحریروں کا ذکر کیا ان میں آغا ناصر صاحب مالک رام، جوش ملیح آبادی وغیرہ شامل ہیں ۔ ان اقتباسات کو سن کر اندازہ ہوتا کہ فیض صاحب کتنےنرم دل اور ٹھنڈے مزاج کے آدمی تھے اور جن لوگوں کے فیض صاحب سے تیس تیس سال پرانے تعلقات تھے ان کا بھی یہ کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی فیض صاحب کو زندگی میں تلخ کلامی کرتے نہیں سنا تھا۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ فیض صاحب میں بہت تحمل تھا وہ خود پر تنقید سن کر کبھی طیش میں نہیں آتے تھے ایک بار کسی اخبار میں ان کے خلاف مہم چل رہی تھی کسی سے فیض صاحب سے کہا کہ آپ اس اخبار کو قانونی نوٹس دیں مگر فیض صاحب نے یہ کہا کر ٹال دیا کہ اگر میری وجہ سے ان کا اخبار بک جاتا ہے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا
آئیے سنتے ہیں تیسرا حصہ
یو ٹیوب چینل
ذکر کتاب
http://YouTube.com/c/zikrekitab?sub_confirmation=1
علم ہو ہنر
https://youtube.com/@ilmohunar4884?sub_confirmation=1
پس منظر
https://youtube.com/@passmanzar.786?sub_confirmation=1
اسپاٹی فائی اردو پوڈ کاسٹ
https://podcasters.spotify.com/pod/show/smh-farooqui-academy/episodes/ep-e24tfrr
https://youtu.be/irksb6Fmoc0 پوری وڈیو دیکھنے کے لیے اوپر دیے گئے لنک پر پریس کریں پاکستان کا خواب کیا تھا ؟ اسلامی ریاست یا مسلم لیگی ریاست کا قیام اس بات کا فیصلہ آج تک نہیں ہو پایا ہے کہ پاکستان کو اسلامی ریاست بننا تھا یا مسلم لیگی ریاست ۔ قاید اعظم نے اگست 1947 میں تین بہت اہم تقاریر کی تھیں پہلے 11 اگست کی تقریر جو آج تک متنازعہ ہے کہ کیا اس میں تحریف کر کے سنسر کی کوشش کی گئی تھی یا قاید کا خواب ایک سیکولر ریاست کے بنانے کا تھا دوسری اہم تقریر قاید اعظم نے 13 اگست کو وائسرائے کے عشائیے میں شاہ برطانیہ کا جام صحت تجویز کرتے ہوئے کی تھی اور تیسری تقریر دستور ساز اسمبلی میں بطور گورنر جنرل حلف اٹھاتے ہوئے کی تھی ۔اس میں قاید نے دستور پاکستان اور تاج برطانیہ سے دونوں سے بیک وقت وفاداری کا حلف اٹھایا تھا ۔ بدقسمتی سے دستور بنانے میں نو سال کی تاخیر کے باعث پاکستان کا اقتدار اعلی 23 مارچ 1956. تک تاج برطانیہ کے پاس ہی رہا اور جناح صاحب کے انتقال کے بعد بھی ایک گورنر جنرل کو برطانیہ کے بادشاہ نے دو کو برطانیہ کہ ملکہ نے تقرر کیا وہ بھی ان سے تاج برطانیہ سے وفاداری کا حلف لینے کے بعد ۔ تاج برطانیہ کے نمائندے اور وفادار یہ گورنر جنرل اس قدر طاقت ور تھے کہ ایک گورنر جنرل نے پوری دستور ساز اسمبلی کو صرف اس لیئے برطرف کر دیا کہ اس کے مجوزہ دستور سے اس کے عہدے کی اہمیت اور طاقت کم ہو رہی تھی۔ پس منظر نے ان تینوں اہم تقاریر کا ٹرانسکرپٹ سرکاری ریکارڈ سے نکال کر کمپوٹر کی مدد سے اسے صوتی تقریر میں ڈھال دیا ہے تاکہ وہ الفاظ لوگوں تک پہنچ سکیں جو قاید نے کہے تھے ان تقاریر سے فیصلہ کرنا آپ لوگوں کا کام ہے کہ خواب ایک اسلامی ریاست بنانے کا تھا یا مسلم لیگی ریاست بنانے کا آج قاید کی تقاریر کے سلسلے میں یہ پہلی قسط ہے اگلی قسطوں میں آپ 13 اگست اور 14 اگست کی تقاریر سنیں گے اور ان تقاریر کے ساتھ ساتھ گورنر جنرل کے حلف کا پس منظر بھی سنیں گے اور اس کے مضمرات کا جائزہ لیں گے
فیض احمد فیض کتابوں کے آئنے میں
کتابیں جو میں نے پڑھیں کے سلسلے میں محمود احمد صاحب جائزہ لے رہے ہیں مختلف ادیبوں شاعروں اور سیاست دانوں کی شخصیت کا ان کتابوں کی روشنی میں جو ان لوگوں نے لکھیں یا ان کے بارے میں لکھی گئی ہیں محمود صاحب اس سے پہلے شیرباز خان مزاری صاحب اور شورش کاشمیری کی شخصیتوں کا جائزہ لے چکے ہیں کتابون کہ روشنی میں انہوں نے تیسری جس شخصیت جق چنا ہے ان کا نام فیض احمد۔ فیض ہے آپ جائزہ لے رہے ہیں فیض کی زندگی کا ان کی اور ان کے بارے میں لکھی ہوئی کتابوں کی روشنی میں ۔ اس سلسلے میں آپ پہلی قسط سن چکے ہیں
آج یہ ا جس میں محمود صاحب نے فیض صاحب کی کتاب دست تہہ سنگ کے حوالے سے بتایا کہ کس طرح وہ کالج کی زندگی ہی سب ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو گئے تھے محمود صاحب نے بتایا تھا کہ ایک وقت تھا کہ فیض صاحب گانے والیوں میں اتنے مقبول تھے کہ اکثر ان سے مشاعروں میں درخواست ہوتی تھی کہ آپ اپنی فلاں گانے والی کی فلاں غزل سنا دیں پہلی قسط میں محمود صاحب نے فیض صاحب کے شادی سے قبل اور شادی کے بعد کے رومان اور معاشقوں کا بھی ذکر کیا تھا
آج یہ اس سلسلے کی دوسری قسط ہے
جس میں فیض صاحب کے معاشقوں اور رومان کے تذکرے کو ختم کرتے ہوئے محمود صاحب نے بتایا کہ فیض صاحب رومان پسند ضرور تھے مگر۔ بد چلن نہیں ۔۔ آج دوسری قسط میں۔ محمودصاحب نے بتایا کہ تقسیم ہند سے قبل ترقی پسند تحریک نے برطانوی سامراج کا اس لیئے ساتھ دیا کہ وہ روس کا اتحادی تھا بڑی تعداد میں ترقی پسند شعرا اور ادیب برطانوی فوج اور حکومت میں۔ شامل ہوئے جس میں فیض صاحب بھی تھے ۔ 1951 میں جب میجر جنرل اکبر خان کی سربراہی میں پنڈی سازش کیس کا انکشاف ہواتو اس میں ہندوستان نے کیمونسٹ پارٹی کے بھیجے ہوئے منذوب سجاد ظہیر کے ساتھ ساتھ فیض صاحب بھی سازش کے شریک کار کے طور پر گرفتار ہوئے تھے پنڈی سازش کیس میں جیل میں گزرے فیض صاحب کے دنوں کے بارے میں۔ ان کی شریک جرم ظفراللہ پوشی کی کتاب زندگی زنداں دلی کا نام ہے کا محمود صاحب نے ذکر کیا پنڈی سازش کیس کے تذکرے کے بعد محمود صاحب نے اس قسط میں جائزہ لیا فیض صاحب کہ صحافیانہ زندگی کا جس کا آغاز ہوا تھا پاکستان ٹائمز سے پھر محمود ہارون نے جب ڈان گروپ کے اخبارحریت کی ادارت انہیں دی تو فیض۔ صاحب نے اسے بائیں بازو کا اخبار ترقی پسند صحافیوں کو لا کر اسے بائیں بازو کا اخبار بنانے کی کوشش کی جو ناکام ہو گئی ۔فیض صاحب۔ محفلوں میں بہت کم گو تھے اور کئی کئی گھنٹوں میں ایک جملہ بھی نہیں بولتے تھے محمود صاحب نے اس قسط میں۔ فیض صاحب کے بارے میں حمید نسیم ، خوشونت سنگھ اور صبیح محسن کہ کتابوں کا حوالہ دیا اقتباسات سنائے اور ان کی کم گوئی کے کئی قصے سنائے
علم و ہنر کے سلسلے جینے کے قرینے یا Soft skill میں آج گفتگو کو موضوع ہے ناکام لوگوں سے بات کر نے کا فن ۔ 17 منٹ کی اس گفتگو کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اگر آپ کو وقتی ناکامی یا مایوسی کا سامنے کرے تب بھی ان لوگوں سے دور رہیں جو عملی زندگی میں ناکام رہے مگر وہ اپنی ہمدردی سے آپ کو مزید مایوس کرنے کے لیے آپ کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہیں ایسے لوگوں سے کیسے جان چھڑائی جائے اس ویڈیو کا موضوع یہی ہے کہ بات کرنے کا فن سیکھیں اور بدمزگی پیدا کیئے بغیر صرف موضوع بدل کر انہیں گفتگو کرنے سے کیسے روکا جائے اور ان لوگوں کے اصل مقاصد کو کیسے ناکام بنایا جائے دوسرا اہم موضوع اس ویڈیو کا یہ ہے کہ کسی شخص نے آپ سے کھلم کھلا زیادتی کی ہے آپ پر ظلم کیا ہے تو نہ اس سے انتقام لینے کی کوشش کریں اور نہ خود پر ظلم کی داستان سنا کر لوگوں کے ہمدردی کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں آپ کو خوش ہونا چاہیے کہ روز قیامت یا ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دے کر ورنہ مظلوم کے گناہ ظالم کے نامہ اعمال میں منتقل کر کے مظلوم کے ساتھ انصاف ہو گا ۔ اگر آپ نے اپنی اس دنیا میں اپنی عدالت خود لگا لی خود مدعی خود گواہ اور خود منصب بن گئے تو فیصلہ آپ نے سنایا اور لوگوں تک مجرم کو سزاوار ٹھہرایا پھر آپ اللہ کی عدالت میں انصاف کا چیز کا مانگیں گے ایک جرم پر دو بار تو کسی کو سزا ملے گی نہیں
پیش خدمت ہے "کالم شاہ محی الحق فاروقی کے" میں ان کا کالم "اونٹ نے زبان اندر کھینچ لی اور بوڑی بھوکی رہ گئی" یہ کالم 20 اکتوبر 1997 کو شائع ہوا تھا چینل کا لنک https://youtube.com/@user-uh5ry5sk6l?sub_confirmation=1 تمام کالموں کی پلے لسٹ کا لنک https://studio.youtube.com/playlist/PLW8_69-eTJUvw4EB-GZ_tgDo59wI7dOL2/edit
فیض احمد فیض کتابوں کے آئنے میں کتابیں جو میں نے پڑھیں کے سلسلے میں محمود احمد صاحب جائزہ لے رہے ہیں مختلف ادیبوں شاعروں اور سیاست دانوں کی شخصیت کا ان کتابوں کی روشنی میں جو ان لوگوں نے لکھیں یا ان کے بارے میں لکھی گئی ہیں محمود صاحب پہلے شیرباز خان مزاری صاحب اور شورش کاشمیری کی شخصیت کا ۔ اب وہ جائزہ لے رہے ہیں فیض احمد فیض کی زندگی کا ان کے فن کا اور ان کے کردار کے کئی مخفی پہلوؤں کا جس کا تذکرہ لوگوں نے اپنی کتابوں میں کیا ہے آج یہ اس سلسلے کی پہلی قسط ہے جس میں محمود صاحب نے فیض صاحب کی کتاب دست تہہ سنگ کے حوالے سے بتایا کہ کس طرح وہ کالج کی زندگی ہی سب ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو گئے تھے محمود صاحب نے بتایا کہ فیض صاحب گانے والیوں میں اتنے مقبول تھے کہ اکثر ان سے مشاعروں میں درخواست ہوتی تھی کہ آپ اپنی فلاں گانے والی کی فلاں غزل سنا دیں ۔ اس قسط میں محمود صاحب نے فیض صاحب کے شادی سے قبل اور شادی کے بعد کے رومان اور معاشقوں کا بھی ذکر کیا ہے
https://youtu.be/cvUuoOH4D50
پیش خدمت ہے "کالم شاہ محی الحق فاروقی کے "میں ان کا کالم
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
یہ کالم 12 اکتوبر 1997 کو شائع ہوا تھا
چینل کا لنک
https://youtube.com/@user-uh5ry5sk6l?sub_confirmation=1
تمام کالموں کی پلے لسٹ کا لنک
https://studio.youtube.com/playlist/PLW8_69-eTJUvw4EB-GZ_tgDo59wI7dOL2/edit
جیسا کے پہلی قسط میں بتایا جا چکا ہے غفران امتیازی صاحب پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک نامور پروڈیوسر تھے جنہوں نے PTV میں اپنی 29 برسوں کی یادوں پر مشتمل انہوں نے ایک سر گزشت لکھی تھی جس کا نام تھا " بیتے دن بیتی یادیں " ۔ اس کتاب کے آغاز میں غفران امتیازی صاحب نے "میں اور میرا خاندان" کے عنوان سے جو مضمون لکھا تھا اس دلچسپ مضمون پر مبنی پانچ قسطوں پر مشتمل یہ سلسلہ شروع کیا ہے پہلی قسط میں ا س کتاب کا تعارف کروایا جا چکا ہے جس میں غفران امتیازی صاحب نے ذکر کیا تھا اپنے خاندانی پس منظر کا اور تقسیم ہند سے قبل کے واقعات کا پہلی قسط کا لنک نیچے موجود ہے آج کی دوسری قسط ہے دوسری قسط میں غفران امتیازی صاحب نے تعارف کروا رہے ہیں اپنے بزرگوں کا اور اپنے والدین کا۔ تیسری قسط میں غفران امتیازی صاحب نے تعارف کروا رتھا اپنے بھا ئوں کا چوتھی قسط میں انہوں نے ذکرکیا تھا اپنی بہنوں کا اور اپنے تعلیمی سفرکا آج پانچویں اور آخری قسط میں غفران امتیازی صاحب ذکر کر رہے ہیںا آل انڈیا ریڈیو کے بچوں کے پروگرام کا جس کا عنوان انہوں نے دیا ہے شوق کا کوئی مول نہیں اس کے علاوہ غفران صاحب نے اپنی اہلیہ اور اپنے بچوں کا اور اس مضمون کا اختتام کیا ہے انہوں نے پی ٹی وی میں اپنے گزرے ہو ئے دنوں کی یادوں سے پہلی چار قسطوں کے لنک نیچے موجود ہے قسط نمبر :1 https://youtu.be/4n2ofaiBb70 قسط نمبر :2 https://youtu.be/8FPIe115qCk قسط نمبر :3 https://youtu.be/Abh-WRj4LB0 قسط نمبر :4 https://youtu.be/OMDKRTfclnw
جیساکے پہلی قسط میں بتایا جا چکا ہے غفران امتیازی صاحب پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک نامور پروڈیوسر تھے جنہوں نے PTV میں اپنی 29 برسوں کی یادوں پر مشتمل انہوں نے ایک سر گزشت لکھی تھی جس کا نام تھا " بیتےدن بیتی یادیں " ۔ اس کتاب کے آغاز میں غفران امتیازی صاحب نے "میں اور میرا خاندان" کے عنوان سے جو مضمون لکھا تھا اس دلچسپ مضمون پر مبنی پانچ قسطوں پر مشتمل یہ سلسلہ شروع کیا ہے پہلی قسط میں ا س کتاب کا تعارف کروایا جا چکا ہے جس میں غفران امتیازی صاحب نے ذکر کیا تھا اپنے خاندانی پس منظر کا اور تقسیم ہند سے قبل کے واقعات کا پہلی قسط کا لنک نیچے موجود ہے آج کی دوسری قسط ہے
دوسری قسط میں غفران امتیازی صاحب نے تعارف کروا رہے ہیں اپنے بزرگوں کا اور اپنے والدین کا۔
تیسری قسط میں غفران امتیازی صاحب نے تعارف کروا رتھا اپنے بھا ئوں کا
آج چھوتی قسط میں وہ ذکر کر رہے ہیں اپنی بہنوں کا اور اپنے تعلیمی سفر کا
پہلی تین قسطوں کے لنک نیچے موجود ہے
قسط نمبر :1
قسط نمبر :2
قسط نمبر :3
جیسا کے پہلی قسط میں بتایا جا چکا ہے غفران امتیازی صاحب پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک نامور پروڈیوسر تھے جنہوں نے PTV میں اپنی 29 برسوں کی یادوں پر مشتمل انہوں نے ایک سر گزشت لکھی تھی جس کا نام تھا " بیتے دن بیتی یادیں " ۔ اس کتاب کے آغاز میں غفران امتیازی صاحب نے "میں اور میرا خاندان" کے عنوان سے جو مضمون لکھا تھا اس دلچسپ مضمون پر مبنی پانچ قسطوں پر مشتمل یہ سلسلہ شروع کیا ہے پہلی قسط میں ا س کتاب کا تعارف کروایا جا چکا ہے جس میں غفران امتیازی صاحب نے ذکر کیا تھا اپنے خاندانی پس منظر کا اور تقسیم ہند سے قبل کے واقعات کا پہلی قسط کا لنک نیچے موجود ہے آج کی دوسری قسط ہے
دوسری قسط میں غفران امتیازی صاحب نے تعارف کروا رہے ہیں اپنے بزرگوں کا اور اپنے والدین کا۔ پہلی قسط کا لنک
قسط نمبر :1
https://youtu.be/4n2ofaiBb70
قسط نمبر :2
https://youtu.be/8FPIe115qCk
جیسا کے پہلی قسط میں بتایا جا چکا ہے غفران امتیازی صاحب پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک نامور پروڈیوسر تھے جنہوں نے PTV میں اپنی 29 برسوں کی یادوں پر مشتمل انہوں نے ایک سر گزشت لکھی تھی جس کا نام تھا " بیتے دن بیتی یادیں " ۔ اس کتاب کے آغاز میں غفران امتیازی صاحب نے "میں اور میرا خاندان" کے عنوان سے جو مضمون لکھا تھا اس دلچسپ مضمون پر مبنی پانچ قسطوں پر مشتمل یہ سلسلہ شروع کیا ہے پہلی قسط میں ا س کتاب کا تعارف کروایا جا چکا ہے پہلی قسط میں غفران امتیازی صاحب نے ذکر کیا تھا اپنے خاندانی پس منظر کا اور تقسیم ہند سے قبل کے واقعات کا پہلی قسط کا لنک نیچے موجود ہے آج کی دوسری قسط ہے - اس دوسری قسط میں وہ تعارف کروا رہے ہیں اپنے بزرگوں کا اور اپنے والدین کا۔ پہلی قسط کا لنک قسط نمبر :1 https://youtu.be/4n2ofaiBb70
غفران امتیازی مرحوم پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک نامور پروڈیوسر تھے جنہوں نے PTV میں اپنی 29 برسوں کی یادوں پر مشتمل ایک سرگزشت لکھی اپنی کتاب میں جس کا نام ہے " بیتے دن بیتی یادوں " ۔ ا س کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں پاکستان ٹیلیویژن کی تاریخ نے اس سوانح عمری کو ایک اہم حوالہ جاتی کتاب بنا دیا ہے ۔ یہ کتاب برقی میڈیا صنعت سے وابستہ لوگوں کے لیئے اور ان لوگوں کے لیے جو اس میدان میں آنا چاہتے ہیں اسے ایک ٹیکسٹ بک کا درجہ رکھتی ہے غفران صاحب نے اس کتاب کے انتساب میں لکھا ہے کہ "یہ کتاب خصوصی طور برقی میڈیا کے طلبہ کے نام ہے " اس کتاب کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ ایک طرف ایک عمدہ سوانح عمری ہے تو دوسری طرف اس کتاب میں غفران امتیازی صاحب نے اپنے درجن بھر ساتھیوں کے خوبصورت خاکے بھی تحریر کیئے ہیں جن میں سے اکثر ٹیلی ویژن کی دنیا میں لیجنڈ کہ حیثیت رکھتے ہیںکتابوں کا تعارف اور کتابوں سے اقتباس کے سلسلے میں آج میں نے ان کا مضمون منتخب کیا ہے "میں اور میرا خاندان " ۔یہ مضمون کا آغاز وہ اس سوال سے کرتے ہیں کہ" میں کون ہوں اے ہم نفسو "سے اور ان کا یہ پورا مضمون اس سوال کا جواب ہے ۔ مضمون کہ طوالت کے پیش نظر یہ پیش خدمت ہے پانچ قسطوں میں آج کی اس پہلی قسط میں غفران امتیازی صاحب نے تعارف کروایا ہے اپنے بزرگوں کا اپنے والدین کا۔
"کتابیں کو میں نے پڑھیں" کے حوالے سے جناب محمود احمد صاحب شورش کاشمیری صاحب کی شخصیت کا جائزہ لے رہے ہیں ان کتابوں کی روشنی میں جو شورش صاحب نے تحریر کیں یا ان کے بارے میں تحریر کی گئیں ۔ آج یہ اس گفتگو کی تیسری قسط ہے
آج کی اس قسط میں محمود صاحب نے شورش کاشمیری صاحب کی شخصیت کا جائزہ لیا ہے ان کے ہم عصر ادیبوں اور شاعروں کی تحریروں اور تجربات کی روشنی میں
بتاتے ہیں کہ احسان دانش صاحب شورش کاشمیری کے استاد بھی تھے جنہوں نے ان کا تخلص الفت سے بدل کر شورش رکھا تھا -احسان دانش نے اپنی کتاب جہان دانش میں جوش صاحب کے بارے میں لکھا کہ وہ منہ پھٹ اور گلیئر تھے مگر محمود صاحب کہتے ہیں کہ شورش کاشمیری صرف دوستوں کی نجی محفل میں گلیئرہوا کرتے تھے مگر اپنی تقاریر اور خطبوں میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ کوئی اخلاق سے گرا لفظ ان کی زبان سے نہ نکلتا تھا -محمود صاحب نے بتایا کہ شورش صاحب کو دشمنی کا سلیقہ آتا تھا اور وہ گرے ہوئے دشمن پر کبھی وار نہیں کرتے تھے - محمود صاحب بتاتے ہیں کہ شورش کاشمیری صاحب کی الطاف حسین قریشی سے بالکل نہیں بنتی تھی مگر جب وہ بھٹو صاحب کے زمانے میں اپنے بھائی کے ہمراہ گرفتار ہوئے اور لوگوں نے شورش صاحب کو چڑھانا چاہا کہ اب بدلہ لینے کا اچھا موقع ہے تو شورش صاحب نے کہا کہ وہ مشکل میں ہیں میں ان سے بدلہ نہیں لوں گا بلکہ اس مشکل سے نکلنے میں ان کی مدد کروں گا ۔
حبیب جالب صاحب کے بارے میں ایک بہت دلچسپ قصہ لکھا کہ ایک بار ان کی سڑک پر پولیس والوں نے جامہ تلاشی لے لی تھی انہوں نے شورش صاحب سے شکایت کی تو وہ غصے کے عالم میں وقوعہ پر پہنچے اور وہاں ہنگامہ کھڑا کر دیا پھر پولیس اسٹیشن جا کر ہنگامہ کیا کہ پولیس والوں کی جرائت کیسے ہوئی حبیب جالب کی جامہ تلاشی لینے کی- معاملہ چیف سیکریٹری پنجاب تک پہنچا مگر شورش صاحب اس معاملہ کو رفع دفع کرنے کو تیار نہ ہوئے بالاخر بھٹو صاحب نے شورش کاشمیری صاحب کو فون کیا کہ میں تحقیق کروا چکا ہوں جسمانی تلاشی ضرور ہوئی تھی مگر حبیب جالب صاحب پر کسی قسم کا جسمانی تشدد نہیں ہوا تھا مگر بھٹو کے فون کا بھی ان پر کوئی اثر نا ہوا ان کا غصہ تب ٹھنڈا ہوا جب متعلقہ پولیس والوں کو معطل کردیا گیا اس قسم کے اور بھی چھوٹے چھوٹے واقعات آپ کو سننے کو ملیں گے اس تیسری قسط میں
پہلی دو قسطوں کا خلاصہ
پہلی قسط اور دوسری قسط میں ( جن کا لنک نیچے دیے گئے ہیں ) محمود صاحب نے بتایا تھا کہ عصر حاضر میں جو خطیب گزرے ہیں ان میں بڑے نام مولانا ابوالکلام آزاد , بہادر یار جنگ ۔عطا اللہ شاہ بخاری ، مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کے ہیں ۔محمود صاحب نے مزید بتایا تھا کہ مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں اپنے وقت کے بڑے خطیب اور بڑے صحافی تھے اس گفتگو میں محمود صاحب کتابوں کی روشنی میں شورش کاشمیری کے ابتدائی ایام کا جائزہ لیا تھا اسی طرح دوسری قسط ۔ محمود احمد صاحب نے جائزہ لیا ہے شورش کاشمیری صاحب اور مولانا کوثر نیازی کے درمیان معرکہ ارائی کا جو بڑھتے بڑھتے لاہور کی ٹولنگٹن روڈ پر مارکٹ میں ہاتھا پائی تک پہنچ گئی جس ذکر مولانا کوثر نے اپنی کتاب میں کیا اس جھڑپ کے بارے میں کشور ناہید نے اپنی کتاب شناسیاں رسوائیاں میں لکھا کہ اس لڑائ میں شورش کاشمیری اور کوثر نیازی کے درمیان بوتلوں اور گھی کے ڈبے کا استعمال کیا گیا محمود صاحب نے بتایا تھا کوثر نیازی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ان کے جوان بیٹے کے انتقال پر شورش نے جو اس وقت اسپتال میں نظر بند تھے تھے کوثر نیازی صاحب تعزیت کا ٹیلی گرام بھیجا اور وہ اتنا درد بھرا پیغام تھا کہ کوثر نیازی صاحب کہتے ہیں کہ اسے پڑھتے ہوئے میرے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور میں دیر تک روتا رہا پھر میرے اور شورش کاشمیری کے تعلقات بہت ہوگئے دوسری قسط میں محمود صاحب نے شورش کاشمیری اور بھٹو صاحب کے درمیان تعلقات کا ذکر کیا اور بتایا کہ شورش کاشمیری صاحب نے اپنی کتاب موت سے واپسی میں بھٹو صاحب کے اس خط کا عکس شائع کیا ہے جس میں بھٹو صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ان کے بہت سارے دوست تھے اوران کی خواہش تھی کہ شورش کاشمیری بھی ان کے دوستوں میں شامل ہو جائیں۔ پھر بھٹو صاحب کہ دوستی کی یہ پہش کش کیسے دشمنی میں بدلی اس سارے معاملے کا ذکر آپ کو آج اس دوسری قسط میں ملے گا
قسط نبمر 1
قسط نبمر2
https://youtu.be/iVde_PDHBFs
علم و ہنر کے سلسلہ وار پروگرام " جینے کے قرینے" کے سلسلے میں اس ویڈیو کا موضوع ہے " گفتگو اور تقریر کا فن "
اس ویڈیو میں بنیادی طور پر گفتگو اور تقریر کے درمیان جو فرق ہے اس کو واضح کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان تمام باتوں کو بھی نشاندہی کی گئی ہے
جو گفتگو کے فن اور تقریر کے فن میں مشترک ہیں
"گفتگو اور تقریر کا فن" پر گفتگو کا یہ سلسلہ اجاری رہے گا اور اگلی قسطوں میں آپ گفتگو اور تقریر کے فن سیکھنے کی اہمیت پر مزید کچھ اور باتیں بھی سنیں گے
اس پہلی ویڈیو میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کون کون سی باتیں ہیں جس کا ہمیں دوران گفتگو یا دوران تقریر خیال رکھنا چاہیے
گفتگو اور تقریر کی دوران مقرر کی ظاہری وضح قطع کی کیا اہمیت ہے بدن بولی یا باڈی لینگویج کیسی ہو۔ گفتگو یا تقریر کے دوران مقرر کو سامعین کی آنکھون میں کیوں رابطہ رکھنا چاہیئے یہ سب آپ کو اس ویڈیو میں جاننے کو ملے گا
اس ویڈیو میں مقررکے ذخیرہ الفاظ کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے
الفاظ کا ذخیرہ کیسا ہو
ایک اہم بات جو آپ کو معلوم ہوگی وہ یہ ہے کہ اگر آپ کو تقریر کا فن آتا ہے تو عملی زندگی اس کے کتنے فوائد ہیں بالخصوص ان لوگوں کو جو شعبہ تدریس سے وابستہ ہوتے ہیں یا وہ جو کسی پینل کو انٹرویو دینگے تو اس میں فن تقریر میں سیکھا ہوا اعتماد اور اپنی بات دوسروں تک پہچانے کا فن آپ کی کام آئے گا
"کتابیں کو میں نے پڑھیں" کے حوالے سے جناب محمود احمد صاحب شورش کاشمیری صاحب کہ شخصیت کا جائزہ لے رہے ہیں ان کتاب کی روشنی میں جو شورش صاحب نے تحریر کیں یا ان کے بارے میں تحریر کی گئیں ۔ آج یہ اس گفتگو کی دوسری قسط ہے پہلی قسط میں ( جس کا لنک نیچے دیا گیا ہے ) محمود صاحب نے بتایا تھا کہ عصر حاضر میں جو خطیب گزرے ہیں ان میں بڑے نام مولانا ابوالکلام آزاد , بہادر یار جنگ ۔عطا اللہ شاہ بخاری ، مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کے ہیں ۔محمود صاحب نے مزید بتایا تھا کہ مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں اپنے وقت کے بڑے خطیب اور بڑے صحافی تھے اس گفتگو میں محمود صاحب کتابوں کی روشنی میں شورش کاشمیری کے ابتدائی ایام کا جائزہ لیا تھا آج پیش خدمت ہے اس کی دوسری قسط ۔ محمود احمد صاحب نے اس قسط میں جائزہ لیا ہے شورش کاشمیری صاحب اور مولانا کوثر نیازی کے درمیان معرکہ ارائی کا جو بڑھتے بڑھتے لاہور کی ٹولنگٹن روڈ پر مارکٹ میں ہاتھا پائی تک پہنچ گئی جس ذکر مولانا کوثر نے اپنی کتاب میں کیا اس جھڑپ کے بارے میں کشور ناہید نے اپنی کتاب شناسیاں رسوائیاں میں لکھا کہ اس لڑائ میں شورش کاشمیری اور کوثر نیازی کے درمیان بوتلوں اور گھی کے ڈبے کا استعمال کیا گیا کوثر نیازی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ان کے جوان بیٹے کے انتقال پر شورش نے جو اس وقت اسپتال میں نظر بند تھے تھے کوثر نیازی صاحب تعزیت کا ٹیلی گرام بھیجا اور وہ اتنا درد بھرا پیغام تھا کہ کوثر نیازی صاحب کہتے ہیں کہ اسے پڑھتے ہوئے میرے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور میں دیر تک روتا رہا پھر میرے اور شورش کاشمیری کے تعلقات بہت ہوگئے اس قسط میں شورش کاشمیری اور بھٹو صاحب کے درمیان تعلقات کا ذکر کیا اور بتایا کہ شورش کاشمیری صاحب نے اپنی کتاب موت سے واپسی میں بھٹو صاحب کے اس خط کا عکس شائع کیا ہے جس میں بھٹو صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ان کے بہت سارے دوست تھے اوران کی خواہش تھی کہ شورش کاشمیری بھی ان کے دوستوں میں شامل ہو جائیں۔ پھر بھٹو صاحب کہ دوستی کی یہ پہش کش کیسے دشمنی میں بدلی اس سارے معاملے کا ذکر آپ کو آج اس دوسری قسط میں ملے گا قسط نبمر 1 https://youtu.be/_FDQfgq8H4o
حیات رضوی امروہوی صاحب کراچی کی ایک ممتاز شخصیت، ایک اچھے شاعر اور ادیب تھے اسی سال دو جولائی کو انہوں نے اپنی رہائش گاہ پرایک مشاعرے کا اہتمام کیا۔ حیات رضوی نے اس موقع پر حاضرین محفل کو بتایا کہ وہ 83 برس کے ہو گئے ہیں لیکن وہ اردو ادب کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میرا دل چاہ رہا تھا کہ کچھ دوستوں سے ملاقات ہو جائے لہٰذا میں نے یہ مشاعرہ ترتیب دیا ہے۔ اپنے رسالے عمارت کار ذکر کرتے ہوئے انہوں نے حاضرین محفل کو بتایا کہ ان کا رسالہ عمارت کار 15 سال سے بلاتعطل شائع ہو رہا ہے لیکن اب پبلشنگ کے مسائل بڑھ گئے ہیں اور مہنگائی کے سبب رسالے کی اشاعت جاری رکھنا ممکن نہیں ہے لہٰذا وہ 30 ویں شمارے کے بعد یہ پرچہ بند کر دیں گے تاہم آن لائن کام جاری رہے گا ۔ اس اعلان کے اگلے دن ہی حیات رضوی صاحب۔ کا انتقال ہو گا حیات رضوی صاحب کی کتابوں میں ان کا مجموعہ کلام زاویہ حیات ، خلاصہ قرآن ، سر سید پر کتاب آثار الصنادید ۔ "پاکستان میں مسلم عمارت کاری"اور کراچی کے بارے میں ان کے مضامین کا مجموعہ کرانچی کرانچی شامل ہیں ۔ اس کتاب میں حیات رضوی صاحب نے کراچی، اس کے مضافات اور سندھ کے بہت سے مقامات کے بارے میں تذکرہ کیا ہے یہ دراصل ان مضامین کا مجموعہ ہے جو روزنامہ جنگ میں ان کے کالم "کولاچی کراچی" اور ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوتے رہے ہیں ان کے مضامین میں سے آپ کے لیئے منتخب کیا ان کا مضمون " کراچی کا اردو بازار " آئیے سنتے ہیں
"کتابیں کو میں نے پڑھیں" کے حوالے سے پچھلے دنوں آپ نے محمود احمد صاحب کا تبصرہ سنا شیر باز مزاری صاحب کے کے بارے میں ۔ یہ تبصرہ تین قسطوں میں آیا تھا اور بنیادی طور پر محمود صاحب نے شیر باز خان مزاری کی شخصیت کا جائزہ لیا تھا ان کی دو سوانح عمری کہ روشنی میں اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اب محمود احمد صاحب نے انتخاب کیا ہے شورش کاشمیری صاحب کا اور وہ ان کی شخصیت کا جائزہ لیں گے ان کتابوں کی روشنی میں جو شورش کاشمیری نے خود لکھی یا ان کے۔ بارے میں لکھی گئی تھیں محمود احمد صاحب کا کہنا ہے کہ عصر حاضر میں جو خطیب گزرے ہیں ان میں بڑے نام مولانا ابوالکلام آزاد , بہادر یار جنگ ۔عطا اللہ شاہ بخاری ، مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کے ہیں ان کا کہنا ہے کہ مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں اپنے وقت کے بڑے خطیب اور بڑے صحافی تھے اس گفتگو کی پہلی قسط میں۔ محمود صاحب کتابوں کی روشنی میں شورش کاشمیری کے ابتدائی ایام کا جائزہ لیں گے