
"کتابیں کو میں نے پڑھیں" کے حوالے سے جناب محمود احمد صاحب شورش کاشمیری صاحب کہ شخصیت کا جائزہ لے رہے ہیں ان کتاب کی روشنی میں جو شورش صاحب نے تحریر کیں یا ان کے بارے میں تحریر کی گئیں ۔ آج یہ اس گفتگو کی دوسری قسط ہے پہلی قسط میں ( جس کا لنک نیچے دیا گیا ہے ) محمود صاحب نے بتایا تھا کہ عصر حاضر میں جو خطیب گزرے ہیں ان میں بڑے نام مولانا ابوالکلام آزاد , بہادر یار جنگ ۔عطا اللہ شاہ بخاری ، مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کے ہیں ۔محمود صاحب نے مزید بتایا تھا کہ مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں اپنے وقت کے بڑے خطیب اور بڑے صحافی تھے اس گفتگو میں محمود صاحب کتابوں کی روشنی میں شورش کاشمیری کے ابتدائی ایام کا جائزہ لیا تھا آج پیش خدمت ہے اس کی دوسری قسط ۔ محمود احمد صاحب نے اس قسط میں جائزہ لیا ہے شورش کاشمیری صاحب اور مولانا کوثر نیازی کے درمیان معرکہ ارائی کا جو بڑھتے بڑھتے لاہور کی ٹولنگٹن روڈ پر مارکٹ میں ہاتھا پائی تک پہنچ گئی جس ذکر مولانا کوثر نے اپنی کتاب میں کیا اس جھڑپ کے بارے میں کشور ناہید نے اپنی کتاب شناسیاں رسوائیاں میں لکھا کہ اس لڑائ میں شورش کاشمیری اور کوثر نیازی کے درمیان بوتلوں اور گھی کے ڈبے کا استعمال کیا گیا کوثر نیازی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ان کے جوان بیٹے کے انتقال پر شورش نے جو اس وقت اسپتال میں نظر بند تھے تھے کوثر نیازی صاحب تعزیت کا ٹیلی گرام بھیجا اور وہ اتنا درد بھرا پیغام تھا کہ کوثر نیازی صاحب کہتے ہیں کہ اسے پڑھتے ہوئے میرے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور میں دیر تک روتا رہا پھر میرے اور شورش کاشمیری کے تعلقات بہت ہوگئے اس قسط میں شورش کاشمیری اور بھٹو صاحب کے درمیان تعلقات کا ذکر کیا اور بتایا کہ شورش کاشمیری صاحب نے اپنی کتاب موت سے واپسی میں بھٹو صاحب کے اس خط کا عکس شائع کیا ہے جس میں بھٹو صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ان کے بہت سارے دوست تھے اوران کی خواہش تھی کہ شورش کاشمیری بھی ان کے دوستوں میں شامل ہو جائیں۔ پھر بھٹو صاحب کہ دوستی کی یہ پہش کش کیسے دشمنی میں بدلی اس سارے معاملے کا ذکر آپ کو آج اس دوسری قسط میں ملے گا قسط نبمر 1 https://youtu.be/_FDQfgq8H4o