
"کتابیں کو میں نے پڑھیں" کے حوالے سے جناب محمود احمد صاحب شورش کاشمیری صاحب کی شخصیت کا جائزہ لے رہے ہیں ان کتابوں کی روشنی میں جو شورش صاحب نے تحریر کیں یا ان کے بارے میں تحریر کی گئیں ۔ آج یہ اس گفتگو کی تیسری قسط ہے
آج کی اس قسط میں محمود صاحب نے شورش کاشمیری صاحب کی شخصیت کا جائزہ لیا ہے ان کے ہم عصر ادیبوں اور شاعروں کی تحریروں اور تجربات کی روشنی میں
بتاتے ہیں کہ احسان دانش صاحب شورش کاشمیری کے استاد بھی تھے جنہوں نے ان کا تخلص الفت سے بدل کر شورش رکھا تھا -احسان دانش نے اپنی کتاب جہان دانش میں جوش صاحب کے بارے میں لکھا کہ وہ منہ پھٹ اور گلیئر تھے مگر محمود صاحب کہتے ہیں کہ شورش کاشمیری صرف دوستوں کی نجی محفل میں گلیئرہوا کرتے تھے مگر اپنی تقاریر اور خطبوں میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ کوئی اخلاق سے گرا لفظ ان کی زبان سے نہ نکلتا تھا -محمود صاحب نے بتایا کہ شورش صاحب کو دشمنی کا سلیقہ آتا تھا اور وہ گرے ہوئے دشمن پر کبھی وار نہیں کرتے تھے - محمود صاحب بتاتے ہیں کہ شورش کاشمیری صاحب کی الطاف حسین قریشی سے بالکل نہیں بنتی تھی مگر جب وہ بھٹو صاحب کے زمانے میں اپنے بھائی کے ہمراہ گرفتار ہوئے اور لوگوں نے شورش صاحب کو چڑھانا چاہا کہ اب بدلہ لینے کا اچھا موقع ہے تو شورش صاحب نے کہا کہ وہ مشکل میں ہیں میں ان سے بدلہ نہیں لوں گا بلکہ اس مشکل سے نکلنے میں ان کی مدد کروں گا ۔
حبیب جالب صاحب کے بارے میں ایک بہت دلچسپ قصہ لکھا کہ ایک بار ان کی سڑک پر پولیس والوں نے جامہ تلاشی لے لی تھی انہوں نے شورش صاحب سے شکایت کی تو وہ غصے کے عالم میں وقوعہ پر پہنچے اور وہاں ہنگامہ کھڑا کر دیا پھر پولیس اسٹیشن جا کر ہنگامہ کیا کہ پولیس والوں کی جرائت کیسے ہوئی حبیب جالب کی جامہ تلاشی لینے کی- معاملہ چیف سیکریٹری پنجاب تک پہنچا مگر شورش صاحب اس معاملہ کو رفع دفع کرنے کو تیار نہ ہوئے بالاخر بھٹو صاحب نے شورش کاشمیری صاحب کو فون کیا کہ میں تحقیق کروا چکا ہوں جسمانی تلاشی ضرور ہوئی تھی مگر حبیب جالب صاحب پر کسی قسم کا جسمانی تشدد نہیں ہوا تھا مگر بھٹو کے فون کا بھی ان پر کوئی اثر نا ہوا ان کا غصہ تب ٹھنڈا ہوا جب متعلقہ پولیس والوں کو معطل کردیا گیا اس قسم کے اور بھی چھوٹے چھوٹے واقعات آپ کو سننے کو ملیں گے اس تیسری قسط میں
پہلی دو قسطوں کا خلاصہ
پہلی قسط اور دوسری قسط میں ( جن کا لنک نیچے دیے گئے ہیں ) محمود صاحب نے بتایا تھا کہ عصر حاضر میں جو خطیب گزرے ہیں ان میں بڑے نام مولانا ابوالکلام آزاد , بہادر یار جنگ ۔عطا اللہ شاہ بخاری ، مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری کے ہیں ۔محمود صاحب نے مزید بتایا تھا کہ مولانا ظفر علی خان اور شورش کاشمیری میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں اپنے وقت کے بڑے خطیب اور بڑے صحافی تھے اس گفتگو میں محمود صاحب کتابوں کی روشنی میں شورش کاشمیری کے ابتدائی ایام کا جائزہ لیا تھا اسی طرح دوسری قسط ۔ محمود احمد صاحب نے جائزہ لیا ہے شورش کاشمیری صاحب اور مولانا کوثر نیازی کے درمیان معرکہ ارائی کا جو بڑھتے بڑھتے لاہور کی ٹولنگٹن روڈ پر مارکٹ میں ہاتھا پائی تک پہنچ گئی جس ذکر مولانا کوثر نے اپنی کتاب میں کیا اس جھڑپ کے بارے میں کشور ناہید نے اپنی کتاب شناسیاں رسوائیاں میں لکھا کہ اس لڑائ میں شورش کاشمیری اور کوثر نیازی کے درمیان بوتلوں اور گھی کے ڈبے کا استعمال کیا گیا محمود صاحب نے بتایا تھا کوثر نیازی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ان کے جوان بیٹے کے انتقال پر شورش نے جو اس وقت اسپتال میں نظر بند تھے تھے کوثر نیازی صاحب تعزیت کا ٹیلی گرام بھیجا اور وہ اتنا درد بھرا پیغام تھا کہ کوثر نیازی صاحب کہتے ہیں کہ اسے پڑھتے ہوئے میرے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے اور میں دیر تک روتا رہا پھر میرے اور شورش کاشمیری کے تعلقات بہت ہوگئے دوسری قسط میں محمود صاحب نے شورش کاشمیری اور بھٹو صاحب کے درمیان تعلقات کا ذکر کیا اور بتایا کہ شورش کاشمیری صاحب نے اپنی کتاب موت سے واپسی میں بھٹو صاحب کے اس خط کا عکس شائع کیا ہے جس میں بھٹو صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ان کے بہت سارے دوست تھے اوران کی خواہش تھی کہ شورش کاشمیری بھی ان کے دوستوں میں شامل ہو جائیں۔ پھر بھٹو صاحب کہ دوستی کی یہ پہش کش کیسے دشمنی میں بدلی اس سارے معاملے کا ذکر آپ کو آج اس دوسری قسط میں ملے گا
قسط نبمر 1
قسط نبمر2
https://youtu.be/iVde_PDHBFs